"ہمزہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
درستی, ویکائی |
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7 |
||
سطر 182: | سطر 182: | ||
* {{اس}} [[مفصلہ (لسانیات)|مفصلہ (articulator)]] |
* {{اس}} [[مفصلہ (لسانیات)|مفصلہ (articulator)]] |
||
اس مقام کا تعین کہ جہاں سے کوئی بھی لسانی آواز نکلتی ہے اسے مفصل (articulation) کہا جاتا ہے اسے بعض اوقات نطق بھی کہتے ہیں۔ جبکہ [[منہ]]، [[حلق]] اور [[ناک]] کا وہ حصہ (حصے) جو اس آواز کو پیدا کرتے ہیں انہیں مفصلہ (جمع:مفصلات) کہتے ہیں۔ ہمزہ کے مفصلہ کا موجودہ عام مقام گو [[مزمار|مزمار (glottis)]] کو مانا جاتا ہے لیکن اس میں یہ بات ماہرین نحو میں تاریخی طور پر متنازع ہے کہ مزمار کے کس مقام سے ہمزہ کی تشکیل ہوتی ہے۔ |
اس مقام کا تعین کہ جہاں سے کوئی بھی لسانی آواز نکلتی ہے اسے مفصل (articulation) کہا جاتا ہے اسے بعض اوقات نطق بھی کہتے ہیں۔ جبکہ [[منہ]]، [[حلق]] اور [[ناک]] کا وہ حصہ (حصے) جو اس آواز کو پیدا کرتے ہیں انہیں مفصلہ (جمع:مفصلات) کہتے ہیں۔ ہمزہ کے مفصلہ کا موجودہ عام مقام گو [[مزمار|مزمار (glottis)]] کو مانا جاتا ہے لیکن اس میں یہ بات ماہرین نحو میں تاریخی طور پر متنازع ہے کہ مزمار کے کس مقام سے ہمزہ کی تشکیل ہوتی ہے۔ |
||
# [[خلیل بن احمد الفراہیدی|خلیل بن احمد]] ([[718ء]] تا [[793ء]]) نے اپنی تصنیف [[کتاب]] [[العین (کتاب)|العین]] (جسے عربی کی پہلی [[لغت]] تسلیم کیا جاتا ہے)<ref>خلیل بن احمد کی کتاب العین کے بارے میں [http://www.nizwa.com/volume2/p103_108.html ایک موقع آن لائن] (عربی)</ref> میں ہمزہ کو—ہوا—کہا ہے اور اسے و اور ی کی مانند آواز کو کھینچنے والا قرار دیا ہے اور اس کا کوئی [[مفصلہ]] نہیں بیان کیا۔ |
# [[خلیل بن احمد الفراہیدی|خلیل بن احمد]] ([[718ء]] تا [[793ء]]) نے اپنی تصنیف [[کتاب]] [[العین (کتاب)|العین]] (جسے عربی کی پہلی [[لغت]] تسلیم کیا جاتا ہے)<ref>خلیل بن احمد کی کتاب العین کے بارے میں [http://www.nizwa.com/volume2/p103_108.html ایک موقع آن لائن] {{wayback|url=http://www.nizwa.com/volume2/p103_108.html |date=20090413172625 }} (عربی)</ref> میں ہمزہ کو—ہوا—کہا ہے اور اسے و اور ی کی مانند آواز کو کھینچنے والا قرار دیا ہے اور اس کا کوئی [[مفصلہ]] نہیں بیان کیا۔ |
||
# جبکہ خلیل بن احمد ہی کے شاگرد اور عربی کے سب سے نمایاں [[ماہر نحو]]، [[سیبویہ]] ([[760ء]] تا [[796ء]]) نے اپنی کتاب، [[الکتاب (سیبویہ)|الکتاب]]<ref>سیبویہ کی الکتاب ایک [http://www.al-eman.com/Islamlib/viewtoc.asp?BID=205 موقع آن لائن پر] (عربی)</ref> میں ہمزہ کے مختلف قواعد بتاتے ہوئے اسے [[حلق]] کے اس حصے سے نکلنے والی آواز قرار دیا ہے جو [[مزمار]] کہلایا جاتا ہے۔ |
# جبکہ خلیل بن احمد ہی کے شاگرد اور عربی کے سب سے نمایاں [[ماہر نحو]]، [[سیبویہ]] ([[760ء]] تا [[796ء]]) نے اپنی کتاب، [[الکتاب (سیبویہ)|الکتاب]]<ref>سیبویہ کی الکتاب ایک [http://www.al-eman.com/Islamlib/viewtoc.asp?BID=205 موقع آن لائن پر] (عربی)</ref> میں ہمزہ کے مختلف قواعد بتاتے ہوئے اسے [[حلق]] کے اس حصے سے نکلنے والی آواز قرار دیا ہے جو [[مزمار]] کہلایا جاتا ہے۔ |
||
== ہمزہ کے قواعد == |
== ہمزہ کے قواعد == |
نسخہ بمطابق 00:58، 1 جنوری 2021ء
ہمزہ اردو کی حروف تہجی کے پینتیسویں حرف ءکو کہتے ہیں۔ جسے بعض لوگ الگ حرف نہیں سمجھتے مگر حقیقت میں وہ دو طریقے سے اردو میں استعمال ہوتا ہے۔ حرف کے طور پر اور وقف مزمار (Glottal Stop) یعنی حلق سے ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ ادا کیے جانے والے لہجے کے طور پر[1]۔ حرف کے طور پر 'دائرہ' جیسے الفاظ میں استعمال ہوتا ہے۔ لہجے کے طور پر 'واؤ' یا 'مؤخر' جیسے الفاظ میں استعمال ہوتا ہے۔ جب یہ الگ حرف کے طور پر استعمال ہو تو حروفِ ابجد کے حساب سے اس کے اعداد الف کے برابر 1 شمار ہوتے ہیں۔ اسے عیسوی سال کے نشان کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمزہ اصل میں آرامی زبان کے ابجد کی صوتیات سے عربی میں آیا جس میں کہ وقف مزمار کے لیے ایک حرف aleph استعمال ہوتا تھا جو عربی میں الف بنا اور چونکہ عربی میں الف سے وقف مزمار کے ساتھ ساتھ طویل مصوتہ (vowel) یعنی حرف علت کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا، جس کی وجہ سے اسے الگ شناخت دینے کے لیے یا یہ ظاہر کرنے کے لیے مذکورہ الف محض مصوتہ نہیں بلکہ وقف مزمار ہے اس کے ساتھ ء کا اضافہ کیا گیا۔ عربی میں یہ ہمزہ، الف کے اوپر بھی آ سکتا ہے اور نیچے کی جانب بھی جس میں بالترتیب اس کے ساتھ زبر اور زیر کے مصوتات (vowels) بھی شامل ہوجاتے ہیں۔
لفظ میں مقام: | الگ | آخر میں | درمیان میں | شروع میں |
---|---|---|---|---|
شکل: | ء | (none) | (none) | (none) |
صوتیاتِ لسانیات
ابتدائییییہ میں دیے گئے حوالہ برائے وقف مزمار کی حیثیت ہمزہ کے استعمال کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہے؛ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمزہ بنیادی طور پر دو مصوتات (vowels) کو الگ کرنے کے مقام پر پیدا ہونے والی glottal stop کی آواز ہی کو کہا جاتا ہے۔ ہمزہ کا تعلق علم الصوتیات سے اس قدر گہرا ہے کہ اردو اور فارسی متکلمین ہی نہیں بلکہ اہل زبان عرب سے بھی اس کے درست استعمال میں غلطی کا امکان مکمل رد نہیں کیا جاسکتا۔ وقف مزمار عام طور پر اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب دو مصوتات المختصر یعنی short vowels (جن کو عربی اور اردو میں خصوصاً اعراب کہا جاتا ہے) ایک ساتھ آتے ہوں ؛ ایسی صورت میں انسانی حلق کی تشریح کے اعتبار سے لازم ہے کہ صوتی طنابیں (vocal cords) اپنے ارتعاش میں تبدیلی لے کر آئیں، اگر ایسا نا ہو تو کبھی بھی دو مسلسل مصوتات المختصر (اعراب) ایک ساتھ ادا نہیں کیے جاسکتے اور وہ آپس میں مدغم ہوکر کسی بھی مصوتات الطویلہ (long vowels) کی آواز پیدا کریں گے جو الف بھی ہو سکتا ہے واؤ بھی اور یے بھی۔ مذکورہ بالا سطور میں آنے والے ایسے الفاظ جن میں اعراب ایک کے بعد ایک آتے ہوں ان کو دوتاخیری (bimoraic) کہا جاتا ہے۔ یہاں bi کا مطلب ہے دو اور moraic بنا ہے mora سے جس کی جمع تاخرات (morae) کی جاتی ہے، mora کا مطلب delay یا تاخیر ہوتا ہے یعنی وہ وقفہ یا تاخیر جو صوتی طنابوں کو دو ایک ساتھ آنے والے اعراب کی قابلِ شناخت آوازیں پیدا کرنے کے لیے درکار ہو۔[2] طویل مصوتات کو عام طور پر bimoraic ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ باالفاظ دیگر کسی مقطعیہ (syllable) میں دو مصوتات کو دوتاخیری کہا جاتا ہے۔ bimoraic کی صورت حال پیدا ہونے کو bimoraicity یا دوتاخریت کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے دوتاخیری الفاظ تین اقسام کے ہوا کرتے ہیں؛
- وہ دوتاخیری الفاظ جن میں دونوں اعراب (یا مصوتات) ایک جیسے ہوں تو ایسی صورت میں ان کو وتارہ (monophthong) کہا جاتا ہے اور اس کی جمع وتارات کی جاتی ہے۔ اس کی ایک آسان مثال جاپانی شہر کا نام saitama کی ہے جس کو اگر کلمہ نویسی میں لکھا جائے گا تو یہ سائیتاما بنے گا اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ اگر اس کو glottal stop یعنی ہمزہ کے بغیر لکھ دیا جائے (یعنی سایتاما) تو پھر یہ monophthong پر مشتمل bimoraic لفظ نہیں بلکہ خود ایک diphthong بن جائے گا[3]۔ عربی، اردو، انگریزی یا کسی بھی زبان کے monophthong لفظ کو اگر درست تلفظ کے ساتھ لکھا جائے گا تو اس میں لازمی طور پر glottal stop آئے گا جس کے لیے ہمزہ لگانے کی شرط ضروری ہے ورنہ وہ تلفظ یا تو ایک طویل مصوتہ بن کر monomoraic ہو جائے گا یا پھر diaphthong بن جائے گا۔
- وہ دوتاخیری الفاظ جن میں دونوں اعراب (یا مصوتات) ایک دوسرے سے مختلف ہوں تو ایسی صورت میں ان کو دغامہ (diphthong) کہا جاتا ہے جس کی جمع دغامات (diphthongs) کی جاتی ہے، diphthong کا لفظ di بمعنی دو اور phthongos سے بنا ہے جس کے معنی صوت کے ہوتے ہیں یعنی دو (جدا) آوازیں؛ انہیں دغامہ کہنے کی وجہ دو آوازوں کا مدغم ہونا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی لفظ loud (لاؤڈ / لاوڈ) میں ou کی آوازیں۔ ان دغامات کی آوازوں کو اردو میں لکھنے کے لیے دونوں کے درمیان آنے والے glottal stop کے مقام پر ہمزہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے (لاؤڈ) اور دو مصوتات الگ الگ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں (لاوڈ) کیونکہ ایسا کرنے سے تلفظ (اگر معلوم ہو تو اس) پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
اس کے علاوہ بعض زبانوں میں بہت کم ایسے الفاظ جن میں تین اعراب (یا مصوتات) ایک روانی میں ہوں یا یوں کہہ لیں کہ ان میں تین یکساں مصوتات کی آوازیں ایک کے بعد ایک آتی ہوں تو ان کو سہ صوتی (triphthong) کہا جاتا ہے؛ جیسے انگریزی لفظ flower کی مثال جس کو درست صوتیات سے سمجھنے والا اگر کوئی واطن مکلم (native speaker) اگر درست تلفظ سے ادا کرے تو اس میں تین مصوتات owe آتے ہیں۔ ایسے الفاظ میں اگر glottal stop آتا ہو تو ہمزہ آئے گا۔
ہمزہ کی اقسام
ہمزہ کی عربی میں دو اقسام ہوتی ہیں جن کا خیال قرآن کی قرائت کے دوران بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
- پہلی قسم تو وہی ہے جس کا ذکر اوپر بھی آیا کہ جسے وقف مزمار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اسے ہمزۃ القطع (cutting hamzah) کہا جاتا ہے اور اسے الف کے اوپر یا نیچے ہمزہ کی علامت لگا کر لکھا جاتا ہے یعنی جیسے أ اور إ اس قسم کے ہمزہ الف کا استعمال عربی اور قرآن میں ہی نہیں بلکہ اردو زبان میں بھی مستعمل ہے مثال کے طور پر لفظ، قِرأت میں [4] یہی ہمزۃ القطع استعمال ہوتا ہے۔
- دوسری ہمزہ کی قسم کو ہمزۃ الوصل (joining hamzah) کہا جاتا ہے اور اسے بلا کسی ء کی علامت کے محض الف کی مانند لکھا جاتا ہے لیکن اس الف پر کوئی دیگر مصوتہ بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی خود کی آواز بطور حرف علت نکلتی ہے۔ عربی تلفظ کے دوران یہ کوئی دانستہ وقف مزمار نہیں ہوتا بلکہ ایک بے ساختہ سی حلقی آواز ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ؛ بالکل لکھا جائے اور پڑھنے میں بالکل آئے تو ایسی جگہ الف کی آواز مفقود ہو جاتی ہے اور اسی الف کی صورت کو ہمزۃ الوصل کہا جاتا ہے۔ اسی طرح عربی سابقہ، ال (لام تعریف) میں بھی یہی ہمزۃ الوصل آتا ہے جیسے اللہ۔
مجموعی جائزہ جداول
first | second | |||||
---|---|---|---|---|---|---|
i | u | a | ī | ū | ā | |
i | ṭiʾiṭ | ṭiʾuṭ | ṭiʾaṭ | ṭiʾīṭ | ṭiʾūṭ | ṭiʾāṭ |
طِئِط | طِئُط | طِئَط | طِئِيط | طِئُوط | طِئَاط | |
u | ṭuʾiṭ | ṭuʾuṭ | ṭuʾaṭ | ṭuʾīṭ | ṭuʾūṭ | ṭuʾāṭ |
طُئِط | طُؤُط | طُؤَط | طُئِيط | طُءُوط | طُؤَاط | |
a | ṭaʾiṭ | ṭaʾuṭ | ṭaʾaṭ | ṭaʾīṭ | ṭaʾūṭ | ṭaʾāṭ |
طَئِط | طَؤُط | طَأَط | طَئِيط | طَءُوط | طَآط | |
ī | ṭīʾiṭ | ṭīʾuṭ | ṭīʾaṭ | ṭīʾīṭ | ṭīʾūṭ | ṭīʾāṭ |
طِيئِط | طِيئُط | طِيئَط | طِيئِيط | طِيئُوط | طِيئَاط | |
ū | ṭūʾiṭ | ṭūʾuṭ | ṭūʾaṭ | ṭūʾīṭ | ṭūʾūṭ | ṭūʾāṭ |
طُوءِط | طُوءُط | طُوءَط | طُوءِيط | طُوءُوط | طُوءَاط | |
ā | ṭāʾiṭ | ṭāʾuṭ | ṭāʾaṭ | ṭāʾīṭ | ṭāʾūṭ | ṭāʾāṭ |
طَائِط | طَاؤُط | طَاءَط | طَائِيط | طَاءُوط | طَاءَاط | |
ay | ṭayʾiṭ | ṭayʾuṭ | ṭayʾaṭ | ṭayʾīṭ | ṭayʾūṭ | ṭayʾāṭ |
طَيْئِط | طَيْئُط | طَيْئَط | طَيْئِيط | طَيْئُوط | طَيْئَاط | |
aw | ṭawʾiṭ | ṭawʾuṭ | ṭawʾaṭ | ṭawʾīṭ | ṭawʾūṭ | ṭawʾāṭ |
طَوْئِط | طَوْؤُط | طَوْأَط | طَوْئِيط | طَوْءُوط | طَوْآط | |
طَوْءِط | طَوْءُط | طَوْءَط | طَوْءِيط | طَوْءَاط |
condition | vowel | |||||
---|---|---|---|---|---|---|
i | u | a | ī | ū | ā | |
#_VC | ʾiṭ | ʾuṭ | ʾaṭ | ʾīṭ | ʾūṭ | ʾāṭ |
إِط | أُط | أَط | إِيط | أُوط | آط | |
C_VC | ṭʾiṭ | ṭʾuṭ | ṭʾaṭ | ṭʾīṭ | ṭʾūṭ | ṭʾāṭ |
طْئِط | طْؤُط | طْأَط | طْئِيط | طْءُوط | طْآط | |
CV_C | ṭiʾṭ | ṭuʾṭ | ṭaʾṭ | ṭīʾṭ | ṭūʾṭ | ṭāʾṭ |
طِئْط | طُؤْط | طَأْط | طِيئْط | طُوءْط | طَاءْط | |
CV_# | ṭiʾ | ṭuʾ | ṭaʾ | ṭīʾ | ṭūʾ | ṭāʾ |
طِئ | طُؤ | طَأ | طِيء | طُوء | طَاء | |
طِء | طُء | طَء |
ہمزہ کی اشکال
عام طور پر عربی اور اردو دونوں میں ہی ہمزہ کا لفظ (خواہ تنہا ہو یا حامل کے ساتھ) ایک چھوٹے سے عین کے ابتدائیییی سر کی طرح سے لکھا جاتا ہے جیسے ؤ یا ء لیکن بعض اوقات (بطور خاص اردو نستعلیق نویسہ میں اسے ایک مائلہ چھوٹے سے انگریزی s کی مانند بھی لکھا جاتا ہے۔
ہمزہ کے مقامات
ہمزہ کا مقام ایک تحریر کے دوران کسی متعدد اشکال میں سامنے آتا ہے۔ اسے بطور انفرادی محرف (یعنی بطور حرف) بھی استعمال کیا جاتا ہے اور بسا اوقات یہ کسی حامل (carrier) پر ہی رکھا جاتا ہے۔ اگر وہ حامل کسی لفظ کی ابتدا میں ہو تو وہ الف ہی ہوتا ہے اس کے علاوہ یہ ناقل و، ہ، ی اور ے بھی ہو سکتا ہے۔
- تنہا (حرف کی مانند):
- ء --- جیسے جزء، انشاء اور ماشاء اللہ وغیرہ کے الفاظ
- حامل کے ساتھ:
- أ اور إ --- یہ زبر کا اظہار بھی ہو سکتا ہے جیسے أَساس، زیر کا بھی جیسے إِفَادَە اور پیش کا بھی جیسے أريد
- ؤ جیسے کھاؤ، گاؤ وغیرہ کے الفاظ
- ئ جیسے مسئلہ، کئی وغیرہ کے الفاظ
- ئے جیسے روئے سخن، روئے زمین اور آن لائن وغیرہ کے الفاظ
- ۀ اردو میں مثلِ طویل زیر یعنی بطور اضافت دو انداز میں آتا ہے
- گول ہ برقرار: ایسی صورت میں اسے ہ کے اوپر لکھا جاتا ہے جیسے بادۂ احمر قابل توجہ بات یہ ہے کہ ۂ زیرِ اضافت کا متبادل نہیں ہے یعنی ۂ کے نیچے زیرِ اضافت کا اضافہ بھی لازم ہے (بادۂِ احمر) جو عام طور پر (بطور خاص دست نویسی میں) لکھا نہیں جاتا۔ بعض اردو لغات میں دو رنگی بھی ملتی ہے کہ ان میں ہمزہ کو ہ سامنے بھی (بادہء احمر) دیا جاسکتا ہے[4]، لیکن اس صورت میں بھی زیرِ اضافت لازم ہے۔
- گول ہ کھلی: ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب ۂ سے قبل کوئی ساکن آئے جیسے معاملۂ گذر اور اس صورت میں بھی زیرِ اضافت آتا ہے یعنی معاملۂِ گذر، جو عموماً نہیں بھی لکھا جاسکتا۔
- جیسا کہ ذکر آیا کہ گول ہ برقرار اور گول ہ کھلی؛ دونوں میں ہی زیر اپنی جگہ لازم ہے یعنی ہمزہ برائے اضافت نہیں آتا، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمزہ کا کیا مقصد ہے؟ اس کا جواب لسانی صوتیات کے فہم کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔ یہاں ہمزہ اصل میں دوالفاظ جوڑنے کے لیے زیرِ اضافت کا متبادل نہیں بلکہ یہاں ہمزہ کی ضرورت وقف مزمار کو واضح کرنے کے لیے اور دو وتارات (monophthongs) کی انفرادیت قائم کرنے اور ان میں الگ الگ تمیز کرنے کے لیے آتا ہے، جو عام بول چال میں استعمال نہیں بھی ہو تب بھی علم صوتیات اور درست تلفظ کے لحاظ سے ضروری ہے۔
مذکورہ بالا بیان میں الفاظ أَساس اور إِفَادَە میں گو کہ بالترتیب الف ہمزہ کے ساتھ زبر اور زیر لگائے گئے ہیں لیکن بسا اوقات ان حرکات کو تحریر سے موقوف کر کہ صرف الف پر اوپر یا نیچے ہمزہ دیا جانا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اردو میں ان ہی عربی الفاظ پر سے اس ہمزہ کو بھی موقوف کر دیا جاتا ہے اور بلا ہمزہ و حرکات صرف اساس اور افادہ ہی لکھ دیا جاتا ہے۔ اگر تلفظ میں دشواری ہونے کا اندیشہ ہو اور ان کا استعمال کیا بھی جائے تو عام طور پر زبر اور زیر کو لگا کر تلفظ میں آسانی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اردو میں الف ہمزہ (بطور ابتدائیییی حامل) کے ساتھ نہایت ہی کمیاب اور صرف مذہبی اور قرآنی الفاظ میں ہی ملتا ہے۔ فارسی میں ہمزہ طویل مصوتات یا حروف علت جیسے ا، و اور ی کے ساتھی ہی آتا ہے۔ جبکہ اردو میں بکثرت عربی قواعد موجود ہونے کی وجہ سے ہمزہ کا استعمال عربی سے نہایت ملتا جلتا ہے۔
مفصلۂ ہمزہ (نُکلک)
- تفصیلی مضمون کے لیے ہمزہ ملاحظہ کریں۔مفصلہ (articulator)
اس مقام کا تعین کہ جہاں سے کوئی بھی لسانی آواز نکلتی ہے اسے مفصل (articulation) کہا جاتا ہے اسے بعض اوقات نطق بھی کہتے ہیں۔ جبکہ منہ، حلق اور ناک کا وہ حصہ (حصے) جو اس آواز کو پیدا کرتے ہیں انہیں مفصلہ (جمع:مفصلات) کہتے ہیں۔ ہمزہ کے مفصلہ کا موجودہ عام مقام گو مزمار (glottis) کو مانا جاتا ہے لیکن اس میں یہ بات ماہرین نحو میں تاریخی طور پر متنازع ہے کہ مزمار کے کس مقام سے ہمزہ کی تشکیل ہوتی ہے۔
- خلیل بن احمد (718ء تا 793ء) نے اپنی تصنیف کتاب العین (جسے عربی کی پہلی لغت تسلیم کیا جاتا ہے)[5] میں ہمزہ کو—ہوا—کہا ہے اور اسے و اور ی کی مانند آواز کو کھینچنے والا قرار دیا ہے اور اس کا کوئی مفصلہ نہیں بیان کیا۔
- جبکہ خلیل بن احمد ہی کے شاگرد اور عربی کے سب سے نمایاں ماہر نحو، سیبویہ (760ء تا 796ء) نے اپنی کتاب، الکتاب[6] میں ہمزہ کے مختلف قواعد بتاتے ہوئے اسے حلق کے اس حصے سے نکلنے والی آواز قرار دیا ہے جو مزمار کہلایا جاتا ہے۔
ہمزہ کے قواعد
عربی زبان میں بنیادی طور پر طے ہے کہ ہمزہ کی خود کوئی آواز نہیں ہوتی اور یہ صرف اپنے اردگرد موجود مصوتات اور حروف علت کی آوازوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے قواعد عربی زبان میں خاصے پیچیدہ ہیں اور بعض اوقات وہ افراد بھی اس کے استعمال میں غلطی کا ارتکاب کر جاتے ہیں کہ جن کی مادری زبان عربی ہے اور وہ عربی قواعد کی نزاکتوں سے مکمل آگاہ نا ہوں۔[7] لیکن اردو میں ایسے الفاظ کافی تعداد میں ملتے ہیں جن میں ہمزہ علاحدہ سے بطور حرف استعمال ہوتا ہے۔ اگر اردو کے نقطۂ نظر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمزہ کے قواعد ذکر کیے جائیں تو انہیں آسان انداز میں یوں لکھا جاسکتا ہے۔
- ہمزہ کے لیے مفترض (default) مقام (کرسی) الف ہی ہوتا ہے جبکہ لیکن اگر لفظ کی تشکیل میں ضرورت ہو تو ی اور و بھی آسکتے ہیں، جبکہ اردو میں ے بھی۔
- اگر اس سے قبل حرف علت آتا ہوں، جیسے الف اور اگر یہ حرف کے اختتام پر ہو تو بلا کرسی (یعنی تنہا) بھی آ سکتا ہے؛ مثال، ماشاء اللہ، جزء وغیرہ۔
- بعض اوقات (بطور خاص اگر لفظ کی ابتدا میں ہو تو) اس کو تحریر میں نہیں لایا جاتا اور صرف اس پر موجود اعرب لکھ دیا جاتا ہے۔ جیسے أَساس کی بجائے صرف اَساس۔
اردو میں ہمزہ بطور حرف
اردو میں ایسے الفاظ کافی تعداد میں ملتے ہیں جن میں ہمزہ علاحدہ سے بطور حرف استعمال ہوتا ہے۔ اردو کی پرانی کتب میں ہمزہ کو علاحدہ حرف سمجھا جاتا تھا۔ ہمزہ سے انحراف کی ایک وجہ کمپیوٹر پر استعمال کی خودساختہ مشکل ہے۔ ایسے حرف جن میں ہمزہ علاحدہ حرف کے طور پر استعمال ہوتا ہے ان کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں:
دائرہ، مشائخ، ایشیا، ماشاء اللہ، جائزہ، فائدہ، نوزائیدہ، آئینہ، رائتہ، جزائر، مسئلہ، بچائی، ہوئی، تحائف، طوائف، طوائف الملوکی، لطائف، خائف، فہمائش، فرمائش، آسائش، نمائش، ستائش، پیدائش،آرائش، رہائش، ستائیس، اٹھائیس، زائچہ، پائمال، صائب، نائب، سائل، مائل، گھائل، شمائل، وسائل، مسائل، رسائل، ملائم، دکھائیں، سنائیں، آئے، جائے، پائے، سوائے، آئیے، جائیے، پائیے، سمجھائیے، شائستہ، کمائی، نائی،قصائی، حلوائی، مٹھائی، دھلائی، سلائی، شہنائی، کڑھائی، بھائی، تائی، ڈھائی، بجھائی، روئی، کھوئی، گویائی، گہرائی، اونچائی، اترائی، جمائی، آرائی (ستم آرائی، انجمن آرائی، ہنگامہ آرائی)، لڑائی، اڑائی، دلجوئی،
کچھ نام جو اردو میں مستعمل ہیں: عائشہ، سائرہ، مائدہ، نائمہ، فائزہ، نائلہ، موجودہ زمانے میں ایسے الفاظ جن کے آخر میں ہمزہ بطور علاحدہ حرف کے آتا ہے اب عموماً انٹیرنیٹ پر ہمزہ کے بغیر لکھے جاتے ہیں مگر ہمزہ ابھی بھی بعض لہجوں میں محسوس ہوتا ہے مثلاً غرباء، فقراء، صلحاء، اثناء وغیرہ۔
ایسے الفاظ بے شمار ہیں جن میں ہمزہ کسی لفظ پر استعمال ہوا ہو مگر بولتے ہوئے صاف علاحدہ سے محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جرأت کو بغیر ہمزہ بول کر دیکھا جائے تو بالکل مختلف لفظ ہوگا۔ چند مزید مثالیں: مآرب، مآخذ، تأثر، مآل، تأسف، تأمل، بِئس، بأس، شأن؛ وغیرہم
مستند کیا ہے؟
مستند لغات اور ان پرانی کتب میں کہ جو اردو کے الفاظ کا ماخذ عربی زبان کی صوتیات کو سمجھنے والوں نے لکھی ہیں ان میں ہر اس مقام پر ہمزہ آتا ہے جہاں قواعد کی رو سے وقف مزمار پیدا ہو اور ضروری نہیں کہ اس وقف مزمار کا احساس عام بول چال میں اجاگر ہوتا ہو کیونکہ اردو میں تلفظ کی ادائیگی اس طرح قواعدی صوتیات کے مطابق عام بولنے والے نہیں کرتے۔ ایسی درست ادائیگی عموماً قرآن کی قرات یا پھر کسی بہت اہم محفل یا تقریر میں ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ عربی زبان کی صوتیات کا خیال رکھ کر لکھی جانے والی بیشتر کتب اسلامی موضوعات پر ہی ہیں کیونکہ اسلامی کتب لکھنے والے علما یقینی طور پر زبان صوتیات کا خیال رکھتے ہیں۔ متعدد لغات جو آن لائن دستیاب ہیں وہ عمومی لغات ہیں، یعنی وہ صوتیات یا کسی اور سائنس پر پیشہ ورانہ لحاظ سے نہیں بلکہ جو الفاظ دیگر اردو کتب میں جس طرح آئے ہیں ان کو اسی طرح درج کر دیتی ہیں اور اکثر اس کتاب کا حوالہ بھی دے دیا جاتا ہے۔[4] ایسی لغت کو کسی بھی طور پر صوتیات کے معاملات میں بطور حوالہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا خواہ وہ لغت کسی حکومت یا کسی ادارے کی سرپرستی میں ہی تیار کی گئی ہو؛ اس بات سے مقصد اس لغت پر اعتراض یا اس کی توہین ہرگز نہیں کیونکہ وہ لغت علم صوتیات کی پیشہ ورانہ لغت نہیں اور صرف دیگر کتب میں آنے والے ان الفاظ کو حوالہ جات کے ساتھ بیان کر رہی ہے جو اردو میں مستعمل ہیں، یعنی صرف اس کا ہدف جدا ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں مذکور ہوا کہ ہمزہ کے درست استعمال میں اہل زبان عرب سے بھی غلطی کا احتمال ناممکنات میں سے نہیں ہے، اسی وجہ سے کوئی اردو دان عالم اس کے استعمال میں غلطی کر سکتا ہے۔ ایک مثال کے طور پر بابائے اردو مولوی عبدالحق کا بیان، ہمزہ کے بارے میں درج کیا جا رہا ہے۔
” | ہمزہ کو غلطی سے حروف میں شامِل کرلیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت ی اور واؤ کے ساتھ وہی کام کرتا ہے جو مدّ الف کے ساتھ کرتی ہے۔ یعنی جہاں ی یا واؤ کی آوازیں کھینچ کر نکالنی پڑیں وہاں بطور علامت ہمزہ لکھ دیتے ہیں[8]۔ | “ |
یہ بیان ایک انتہائی فاش غلطی ہے؛ ہمزہ کبھی بھی مد کا کام نہیں کرتا بلکہ یہ bimoraic الفاظ کے مصوتات جدا کرنے اور یا پھر کسی عرب (عموماً الف) یا مصوتہ (ا و ی) کی کرسی پر آکر وقف مزمار کی شناخت کرواتا ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ دو آوازوں یا الفاظ کو ایک دوسرے سے جداگانہ شناخت دیتا ہے۔[9] یعنی معاملہ الٹ کہ ہمزہ تو بذات خود بکثرت monophthong کو diphthong کی طویل آواز بننے سے روکنے کے لیے آتا ہے (دیکھیے قطعہ، صوتیاتِ لسانیات)۔ عرض مکرر ہے کہ یہاں مقصود کسی بھی شخصیت پر اعتراض نہیں بلکہ جو صورت حال ہے اس کو بیان کرنا ہے۔
چند متنازع الفاظ
اردو میں ایسے متعدد الفاظ ملتے ہیں کہ جن کو ہمزۃ القطع (cutting hamzah) کے ساتھ اور اس کے بغیر دونوں طرح لکھ دیا جاتا ہے، ایسا صرف آج کل شمارندی اردو پر ہی نہیں بلکہ اردو کی کتب میں بھی دیکھنے میں آتا ہے لہذا بنیادی طور پر اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ اردو میں عام تلفظ کی روانی میں جو الفاظ جاری ہوتے ہیں ان کا مفہوم سمجھنے کے لیے ہمزہ کے نا ہونے کی وجہ کوئی دشواری پیدا نہیں ہوتی؛ مثال کے طور پر لفظ ؛ کیے اور کیے دونوں طرح دیکھنے میں آتا ہے۔ اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ وہ اشخاص جو اردو کے ایسے الفاظ کی صوتیات سے واقف ہیں یا کم از کم اس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں وہ تو اردو کے ان الفاظ پر ہمزہ لگاتے ہیں اور جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب ہمزہ نا لگانے سے مفہوم سمجھنے میں کوئی ابہام یا دشواری نہیں آتی تو پھر ہمزہ درج نا کر کے سادہ الفاظ اختیار کیے جاسکتے ہیں؛ اس مضمون کا مقصد کسی بھی ایک کی حمایت یا مخالفت نہیں بلکہ صرف صورت حال کو سامنے لانا ہے۔
قواعدی وجوہات
اگر ایک عام سے لفظ ؛ لِئے کو دیکھا جائے مذکورہ بالا مضمون میں اب تک دی گئی صوتیات کی توجیہات کو اس مثال سے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ لِئے کو اردو میں ل پر زیر کے ساتھ بڑی یے کو جوڑ کر liye یا liey ادا کیا جاتا ہے اور اگر اس میں موجود آوازوں کو صوتیات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس مقطعیہ (syllable) میں دو وتارہ (monophthong) موجود ہیں (1- لِ اور 2- ئے) یعنی یہ ایک دوتاخیری (bimoraic) لفظ ہے جس میں پہلا وتارہ، ل پر زیر یعنی عرب یا short vowel کے ذریعے لی کی چھوٹی آواز پیدا کر رہا ہے جبکہ دوسرا وتارہ بڑی یے یعنی مصوتہ یا vowel کے ذریعے سے طویل آواز پیدا کر رہا ہے۔ غور کرنے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کے دو مقطعیات (syllables) جس مقام پر الگ ہوتے ہیں وہاں وقف مزمار (جو عام طور پر غیر محسوس گزر جاتا ہے) آنا لازمی ہے اور اسی وجہ سے عربی تجوید کو جاننے اور اسلامی کتب لکھنے والے علما بکثرت لیے کو ہمزہ کے ساتھ لکھتے ہیں کیونکہ اگر لی ( li ) اور ے ( ye ) کی آواز کو ہمزہ سے الگ نا کیا جائے تو کس طرح ی کی آواز ے پر ختم ہوگی؟ اس لیے اردو میں اسی صورت حال کی وجہ سے بعض جگہ اس کو ل پر زیر کی بجائے مکمل مصوتہ ی کے ساتھ لی + ے لکھا جاتا ہے۔[10] لیے کی صورت میں آواز اور لیے کی صورت میں آواز ؛ دونوں میں ایک واضح فرق ہے اور دونوں انداز کے لہجے اردو میں سننے کو ملتے ہیں؛ بطور خاص ہندوستان کی پرانے انداز کی اردو میں۔
چند الفاظ
درج میں چند ایسے الفاظ دیے جا رہے ہیں کہ جن میں عموماً ہمزہ کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ ان الفاظ کے لغوی ماخذ میں ابہام سے پیدا ہوتی ہے جس کی ایک مثال یوں ہے کہ لیے کے بارے میں سمجھا گیا کہ یہ لفظ لیا سے اخذ ہے اور بتائیے، بتائی سے بنا ہے اس لیے چونکہ لیا میں ہمزہ نہیں اور بتائی میں ہمزہ ہے اس وجہ سے لیے پر ہمزہ نہیں آ سکتا اور بتائی کی وجہ سے بتائیے پر ہمزہ درست ہے؛ یہاں پہلا ابہام تو ان کے ماخذات کے سلسلے میں ہے کہ بتائیے بھی بغیر ہمزہ کے لفظ بتا (بتانا) سے اخذ ہے نا کہ بتائی سے اور دوسرا ابہام یہاں یہ ہے کہ یہ سمجھنا کہ اگر اصل منبع لفظ میں ہمزہ ہے تو ہی ماخوذ لفظ پر ہمزہ آئے گا۔ یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ اگر ماخذ پر ہمزہ نا ہو لیکن اس سے ماخوذ کیے جانے والے لفظ پر وقف مزمار آتا ہو تو اردو قواعد کی رو سے ہمزہ لگایا جائے گا۔[1]
- لیے / لیے : دونوں ہی درست ہیں اور ایک دوسرے کے مکمل متبادل آسکتے ہیں۔ صوتیات کے اعتبار سے پہلی صورت احسن ہے کہ جس میں ل زیر کے عرب کی آواز کو وقف مزمار سے الگ کیا جاتا ہے جبکہ دوسری صورت میں ی اور ے کے مصوتات کو الگ الگ پڑھا جاتا ہے جس میں لاکھ کوشش کے باوجود حلق کا جھٹکا شامل ہو جاتا ہے اور لی ئے کی سی آواز سنائی دیتی ہے۔ عربی صوتیات کا خیال رکھ کر لکھی جانے والی متعدد کتب میں یہ دونوں الفاظ متبادل آتے ہوئے ملتے ہیں اور ان کے استعمال میں، کسی ایک کے لیے، لینا (فعل) یا برائے (متعلق فعل) کی تمیز نہیں پائی جاتی۔[11]
- دیے / دئے : صورت اول صوتیاتی اعتبار سے احسن ہے[11][12] جبکہ صورت دوم بھی ملتی ہے[13] ان دونوں متبادلات میں بھی فعل یا متعلق فعل کا لیے خصوصیت نہیں ملتی۔
- بنائیے : اس کے بارے میں بھی یہ ابہام سننے میں آیا ہے کہ یہ بنائی سے بنا ہے اس لیے اس میں ہمزہ استعمال ہونا درست ہے، صورت حال یوں ہے کہ یہ بنانا سے ماخوذ لفظ ہے جس میں ہمزہ نہیں آتا لیکن بنائیے میں وقف مزمار آجانے کی وجہ سے ہمزہ لگایا جاتا ہے۔
- گئے
- سنیئے : ہمزہ ی کے بعد آئے گا یعنی ؛ س ن ی ء ے کیونکہ وقف مزمار ی اور ے کے مابین ہے
- سنائیے : ہمزہ ی سے قبل آئے گا یعنی س ن ا ء ی ے کیونکہ وقف مزمار الف اور ی کے مابین ہے
- لیجئے / لیجیے / لیجیئے : تینوں انداز میں ملتا ہے ؛ حوالہ برائے اول؟، برائے دوم [4] اور برائے سوم [12]
- کیجیئے / کیجیے / کیجئے : بالائی مثال کے بعد حوالوں کی ضرورت تو نہیں پر پھر پہلی (احسن) کیفیت کی حجت تمام کے لیے ایک مستند سمجھی جانے والی لغت پر فنی خرابی کا عکس ملاحظہ کیجیئے جو شکل الف میں دیا گیا ہے۔
- دیجیئے/ دیجیے / دیجئے : بالائی مثال کے بعد حوالوں کی ضرورت تو نہیں پر پھر پہلی (احسن) کیفیت کی حجت تمام کے لیے ایک مستند سمجھی جانے والی لغت پر فنی خرابی کا عکس ملاحظہ کیجیئے جو شکل الف میں دیا گیا ہے۔
- چاہیے / چاہیے : حوالہ برائے اول [14] اور دوم [4]
- ٹھہریئے (ٹھہرئیے) / ٹھہریے : اول[15] اور دوم [4]
تاہم ایسے الفاظ میں اس امر کا اہتمام ہونا چاہئے کہ: (ی ء ے) یا (ء ی ے) کا اجماع نہ ہو؛ (ء ے) یا (ی ے) درست ہے۔ مثال کے طور پر: چاہیے، چاہئے (درست) اور چاہیے، چاہئیے (غلط)؛ لیے، لیے (درست) اور لیے، لئیے (غلط)؛ دیجیے، دیجئے (درست) اور دیجیئے، دیجئیے (غلط) ہیں، وعلیٰ ہٰذاالقیاس
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ^ ا ب سید رضا شاہد کا وقف مزمار کے بارے میں ایک مقالہ (پیڈی ایف فائل)
- ↑ انگریزی وکشنری پر mora کا اندراج
- ↑ عربی صوتیات کے بارے میں ایک مضمون (پیڈی ایف فائل)
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ایک اردو لغت آن لائن میں ہمزۃ القطع کا استعمال
- ↑ خلیل بن احمد کی کتاب العین کے بارے میں ایک موقع آن لائن آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nizwa.com (Error: unknown archive URL) (عربی)
- ↑ سیبویہ کی الکتاب ایک موقع آن لائن پر (عربی)
- ↑ ایک موقع آن لائن پر عربی، اردو حروف کا بیان (انگریزی)
- ↑ بی بی سی موقع پر داستان غریب ہمزہ
- ↑ Rules of recitation of al-qur'an پر آن لائن کتاب
- ↑ ایک آن لائن لغت پر لیے کا اندراج
- ^ ا ب اصحابِ صُفّہ اور تصوف کی حقیقت از امام ابن تیمیہ ؛ ترجمہ عبد الرزاق ملیح آبادی : المکتبۃ السلفیۃ۔ شیش محل روڈ لاہور
- ^ ا ب علامہ اقبال اور فلسفۂ زندگی اور موت آن لائن مضمون
- ↑ ایک آن لائن لغت میں دیے
- ↑ یوم اقبال 1954ء کی تقریر آن لائن پیڈی ایف)
- ↑ اقبال کی کہانی خود اقبال کی زبانی (آن لائن پیڈی ایف)