راحت گڑھ
قصبہ | |
سرکاری نام | |
مدھیہ پردیش میں محل وقوع | |
متناسقات: 23°47′N 78°22′E / 23.78°N 78.37°E | |
ملک | بھارت |
ریاست | مدھیہ پردیش |
ضلع | ساگر |
حکومت | |
• مجلس | نگر پالیکا پریشد |
• چیئرمین | نیرج شرما (BJP) |
• ایم ایل اے |
|
بلندی | 461 میل (1,512 فٹ) |
آبادی (2011)[1] | |
• کل | 31,537 |
زبانیں | |
• دفتری | ہندی |
• علاقائی زبان | اردو ہندی اور بندیل کھنڈی |
منطقۂ وقت | بھارتی وقت (UTC+5:30) |
پِن کوڈ | 470119 |
ٹیلی فون کوڈ | +917584 |
آیزو 3166 رمز | IN-MP |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | mp 15 |
راحت گڑھ جسے مشہور انگریزی مورخ جان میلکم John Malcolm اپنی کتاب memoir of Central India میمویر آف سینٹرل انڈیا (تاریخ وسطی ہند) میں راٹھ گڑھ rathgarh کے نام سے ذکر کرتا ہے، یہ صوبہ مدھیہ پردیش کے ضلع ساگر میں دار السلطنت بھوپال سے شمال مشرق کی جانب 135 کلومیٹر اور ساگر سے مغرب کی جانب 37 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ قصبہ انتہائی پرانا تاریخی قصبہ ہے، تاریخی اعتبارسے چندیل، پرمار،گونڈ،مغل، افغان، سندھیا اوربرطانوی سلطنتوں کا شاہد ہے، جغرافیائی اعتبارسے بندیل کھنڈ اور مالوہ کا سنگم ہے، بندیل کھنڈ کے ساگر ضلع میں ہونے کی وجہ سے اسے بندیل کھنڈ میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ اس کی آب و ہوا،ندی اور پہاڑوں کی ساخت اسے مالوہ سے جوڑتی ہے، مورخین نے مالوہ کی حد بھیلسہ (ودیشہ) تک بیان کی ہے، اس اعتبار سے راحت گڑھ کے مغرب میں بہنے والی ندی جو راحت گڑھ کے جنوبی پہاڑی سلسلے سے شمالی پہاڑی سلسلے کو ملاتی ہے بندیل کھنڈ اور مالوہ کی حد بندی کرتی ہوئی نظر آتی ہے، اس ندی پر ایک پل ہے جسے انگریزوں نے تعمیر کرایا تھا اورپل کی دیوار پر نصب کتبے کے مطابق مئی سنہ 1864 عیسوی میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی،وہ بندیل کھنڈ اور مالوہ کو جوڑنے کا ذریعہ ہے۔
تاریخ
[ترمیم]راحت گڑھ کی قدیم تاریخ کے متعلق اب تک پرمار راجا "جے ورمن دوم" کے ایک نوشتہ کا سراغ ملا ہے، جو 28 اگست 1256عیسوی کاجاری کردہ خیال کیا جاتا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ تیرہویں صدی میں راحت گڑھ پرماروں کے زیرِاقتدارتھا اور یہ قیاس آرائی کی جاتی ہے کہ راجا "جے ورمن دوم"نے اسے چندیلوں سے حاصل کیا ہوگا۔ اس کے بعد سولہویں صدی عیسوی میں گونڈوں کی سلطنت "گڑھ منڈلا" کے اڑتالیسویں راجا " سنگرام شاہ " نے 52 گڑھ فتح کیے جن میں سے ایک راحتگڑھ بھی تھا، اس طرح سولہویں صدی عیسوی میں راحت گڑھ گونڈ سلطنت میں شامل ہو گیا، پھر عہد اکبری میں آصف خان اور رانی درگاوتی کی جنگ ہوئی جس میں رانی درگاوتی اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئی اور ریاست گونڈوانہ مغل سلطنت کے زیر اقتدار آگیا، سلطان اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں مہاراجا چھترسال نے ان پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ پھر اٹھارویں صدی عیسوی میں افغانستان کے جلال آباد سے ہندوستان آئے نواب دوست محمد خان نے جب بھیلسہ کو کرائے پر لے کر اپنی سلطنت قائم کرلی، تب راحت گڑھ کو بھی اس میں شامل کر لیا، اس طرح اٹھارویں صدی عیسوی میں راحتگڑھ ریاست بھوپال میں شامل ہو گیا،اور نواب دوست محمد خان کے دوسرے بیٹے سلطان محمد خان کی اولاد کے ہاتھ میں رہا ، 1807 تک وہ اس کے مالک تھے، لیکن 1807 میں دولت راؤ سندھیا نے اسے سندھیا سلطنت میں شامل کر لیا، پھر سنہ 1818 میں جب سندھیا سلطنت برطانوی سلطنت کے تابع ہو گئی تو راحت گڑھ بھی برطانوی سلطنت کے زیرِ اقتدار آگیا۔ پھر جب اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی واقع ہوئی تب نواب بھوپال نے اپنی ریاست میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے انگریزی فوج کا ساتھ دیا ، اس وقت صرف انبا پانی (گڑھی) کے جاگیردار سردار فاضل محمد خان اور عادل محمد خان، اسی طرح راحت گڑھ کے نواب راحت محمد خان نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی، انگریز اور بھوپال کی مشترکہ فوج نے گڑھی پر قبضہ کرنے کے بعد فاضل محمد خان اور عادل محمد خان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ وہ دونوں راحتگڑھ کے قلعے میں جا پہنچے اور قلعہ بند ہو کر لڑائی جاری رکھی، بالآخرسردار فاضل محمد خان کو زندہ گرفتار کر لیا گیا اور انھیں قلعے کے صدر دروازے پر پھانسی دے دی گئی۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "Census of India Search details"۔ censusindia.gov.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2015
تاریخ وسط ہند از جان میلکم۔ خلاصۃ التواریخ از سبحان راے۔ تاج الاقبال تاریخ ریاست بھوپال۔ بندیل کھنڈ از پنڈت کشن نرائن۔