زکریا بن ابی زائدہ
آپ تابعین میں سے ایک تھے۔آپ نے 148ھ میں وفات پائی۔
زکریا بن ابی زائدہؒ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
[ترمیم]نام زکریا اور ابو یحییٰ کنیت تھی، پورا نسب نامہ یہ ہے، زکریا بن ابی زائدہ خالد بن میمون بن فیروز، ایک دوسرے قول کے مطابق ان کے والد ابو زائدہ کا نام ہیرہ تھا، عمروبن عبد اللہ الوداعی سے نسبتِ ولاء رکھتے تھے۔ وادعہ قبیلہ ہمدان کی ایک شاخ ہے اس بنا پر زکریا بن ابی زائدہ الوداعی اور ہمدانی کہے جاتے ہیں [1] علامہ ابن سعد نے ابی زائدہ کو عمرو بن عبد اللہ کی بجائے محمد بن المنتشر ہمدانی کا غلام بتایا ہے۔ [2]
فضل وکمال
[ترمیم]علم و فضل کے اعتبار سے وہ زمرہ اتباع تابعین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی جلالت مرتبت کا اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے کہ ان کے صاحبزادے یحییٰ بن زکریا بھی اپنے والد کے فیض صحبت سے بہرہ ور ہوکر خود بھی اتباع تابعین میں بلند مرتبہ ہوئے۔حدیث و فقہ میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔
حدیث
[ترمیم]حافظ ابن حجرؒ نے ان کا شمار طبقہ سادسہ کے محدثین میں کیا ہے اور اہلِ نظر سے مخفی نہیں کہ اخیار و صلحاء امت کا یہ وہ طبقہ ہے ، جنھوں نے صحابہ کرام اور تابعین عظام کے چراغوں سے اپنے دلوں کی دنیا منور کی تھی، انھوں نے اپنے گردو پیش کی پوری فضا کو قال اللہ وقال الرسولﷺ کے سرمدی نغموں سے گونجتا پایا تھا۔ چنانچہ یحییٰ بھی اس معدنِ علم سے کندن بن کر نکلے، انھوں نے اس علمی ماحول سے پوری طرح استفادہ کیا تھا اور سرمد آرائے روزگار ائمہ سے حدیث وفقہ کی تحصیل کی تھی۔ زکریا کو مشہور تابعی ابو اسحاق سبیعی سے خصوصی تلمذ کا شرف حاصل تھا،ان کے علاوہ جن علما سے انھوں نے اپنی علمی تشنگی فرو کی ان میں عامر الشعبی ، فراس ،سماک بن حزب ، سعد بن ابراہیم، خالد بن سلمہ، مصعب بن شعبہ، عبد الملک بن عمیر کے اسمائے گرامی ممتاز ہیں۔ [3]
تلامذہ
[ترمیم]خود زکریا بن ابی زائدہ کے خرمنِ علم سے خوشہ چینی کرنے والوں میں ان کے صاحبزادے یحییٰ کے علاوہ سفیان ثوری، شعبہ ، عبداللہ بن مبارک، عیسیٰ بن یونس ، یحییٰ بن سعید القطان، وکیع بن الجراح، ابو اسامہ ، ابو نعیم ، جیسے اکابر شامل ہیں۔
ثقاہت اورتدریس
[ترمیم]ان کی عدالت وثقاہت کے بارے میں محققین مختلف الرائے ہیں [4] تاہم انھیں ضعیف کسی نے بھی قرار نہیں دیا ہے، زیادہ سے زیادہ بعض علما نے ان کی طرف تدلیس کی نسبت بیان کردیتے تھے، ناقدین فن کے نزدیک یہ چیز ایک عیب تصور کی جاتی ہے، لیکن احناف کے نزدیک ثقات کی مدلس روایات مقبول ہیں، جیسا کہ زکریا کی ثقاہت مسلم ہے۔ علما کی ایک بڑی جماعت نے انھیں ثقہ اور صدوق قراردیا ہے۔علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: "کان ثقۃ کثیرا الحدیث" [5] حافظ ذہبی انھیں صدوق مشہور حافظ کہتے ہیں۔ [6] امام احمد اور ابوداؤد نے بھی تصدیق کی ہے [7] امام نسائی ، یعقوب بن سفیان اور ابوبکر البزاز بھی ان کی ثقاہت کے معترف ہیں [8] حافظ ذہبی انھیں صدوق مشہور حافظ کہتے ہیں۔ [9] امام احمد اور ابوداؤد نے بھی تصدیق کی ہے [10]امام نسائی،یعقوب بن سفیان اور ابوبکر البزاز بھی ان کی ثقاہت کے معترف ہیں [11]مزید برآں ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا بہت نمایاں ذکر کیا ہے۔ [12]
افتاء وقضاءت
[ترمیم]فقہ وحدیث میں عبور کلی کے ساتھ افتاء وقضاءت پر بھی کامل قدرت حاصل تھی،اس بنا پر کوفہ کی مسند قضا کی بھی زینت بنے،ابن قانع کا بیان ہے: "کان قاضیاً بالکوفۃ" [13]
علما کی آراء
[ترمیم]زکریا کی جلالتِ شان کا اعتراف ان کے معاصر اور بعد کے علما دونوں نے کیا ہے ،امام احمد کا قول ہے کہ جب ابو اسحاق سبیعی کی کسی روایت کے بارے میں ان کے شاگردان رشید زکریا اور اسرائیل میں اختلاف رائے پیدا ہوجائے تو میرے نزدیک زکریا کا قول مرجع ہوگا،ابن معین کہتے ہیں کہ زکریا مجھے ہر چیز میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔عجلی کا بیان ہے کہ وہ ثقہ تھے،لیکن انھوں نے ابو اسحاق سبیعی سے ان کی آخری زندگی میں سماعت کی تھی،جبکہ انسان کے دماغی وذہنی قوی الخطاط پزیر ہوجاتے ہیں، اس لیے محدثین اس زمانہ حیات کی روایتوں کو بلند درجہ نہیں دیتے۔چنانچہ ائمہ فن نے زکریا کی ثقاہت کا اعتراف کرنے کے باوصف ان کی ان روایات کی کمزوری کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ [14]
وفات
[ترمیم]باختلافِ روایت 148ھ یا 149ھ میں اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی۔ [15]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ (تہذیب التہذیب:3/329)
- ↑ (طبقات ابن سعد:6/227)
- ↑ (خلاصہ تذہیب وتہذیب الکمال: )
- ↑ (میزان الاعتدال للذہبی:1/349،وتہذیب التہذیب:3/329)
- ↑ (طبقات ابن سعد:6/227)
- ↑ (میزان الاعتدال:1/349)
- ↑ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال)
- ↑ (تہذیب التہذیب:3/330)
- ↑ (میزان الاعتدال:1/349)
- ↑ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال)
- ↑ (تہذیب التہذیب:3/320)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (طبقات ابن سعد:6/227)
- ↑ (طبقات ابن سعد:6/227)