قثم بن عباس
قثم بن عباس | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 624ء مدینہ منورہ |
وفات | سنہ 677ء (52–53 سال) سمرقند |
والد | عباس بن عبد المطلب |
والدہ | لبابہ بنت حارث |
بہن/بھائی | |
بھائی | فضل بن عباس عبد اللہ بن عباس عبید اللہ بن عباس |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد |
درستی - ترمیم |
قثم بن عباس بن عبد المطلب الہاشمی القریشی جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بھائی تھے۔[1]
نام و نسب
[ترمیم]آپ کا نام قثم ہے آپ کے والد کا نام عباس بن عبد المطلب ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سگے چچا تھے۔ آپ کی والدہ کا نام لبابہ بنت حارث ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ کے بعد اسلام لانے والی دوسری خاتون ہیں۔[2]
بچپن
[ترمیم]نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں آپ بہت کمسن تھے۔نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب کی اولاد سے بڑی محبت تھی۔ ایک مرتبہ قثم، عبد اللہ اور جعفر ساتھ کھیل رہے تھے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری ادھر سے گذری تو جعفر اور قثم کو ساتھ بیٹھا لیا۔[2]
ابن اسحاق اور کا بیان ہے: بدر کے روز جب عباس بن عبد المطلب گرفتار ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا اپنا فدیہ ادا کیجئے کیونکہ آپ مالدار ہیں۔ عباس کہنے لگے میرے پاس تو کوئی مال نہیں۔نبی کریم ﷺ نے (بذریعہ وحی) فرمایا وہ مال جو آپ نے ام فضل کے پاس رکھوایا، وہ کہاں ہے؟ فرمانے لگے اچھا میں اگر مر گیا تو اس مال میں سے فضل بن عباس کا اتنا، عبد اللہ بن عباس کا اتنا اور عبید اللہ بن عباس و قثم بن عباس کا اتنا اتنا حصہ ہے۔(حدیث) جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش بدر سے پہلے ہوئی ہے۔[3]
ایسی ہی ایک حدیث ابن عباس سے روایت ہے جس میں یہ اضافہ ہے۔ عباس نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی برحق معبوث کیا اس بات سے سوائے میرے اور میری بیوی کے اور کوئی وقف نہیں تھا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ ﷺ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں۔ عباس نے اپنا اپنے بھتیجوں اور حلیف کا فدیہ ادا کیا۔[4]
غسل جسم اطہر
[ترمیم]نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ظاہری وفات کے وقت آپ کسی حد تک سنِ شعور کو پہنچ چکے تھے، چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غسلِ میت اور تجہیز و تکفین میں شریک تھے اور غسل دیتے وقت حضرت علی کے ساتھ جسد اطہر کو کروٹیں بدلا کرتے تھے۔ آپ قبر انوار میں اتارنے کے لیے بھی اترے تھے اور جسد اطہر کو فرش خاک پر لٹانے کے بعد سب سے آخر میں قبر انوار سے نکلے تھے، لیکن بعض راوی یہ آخری شرف حضرت مغیرہ کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس کا بیان ہے کہ آخری شرف قثم کو حاصل ہوا۔[2]
امارت
[ترمیم]وفات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد شیخین کے اختتام خلافت تک کے حالات پردہ خفا میں ہیں۔ حضرت علی نے اپنے زمانہ خلافت میں آپ کو باختلاف پہلے مدینہ اور پھر مکہ کی امارت پر سرفراز فرمایا۔[2]
شہادت
[ترمیم]امیرمعاویہ بن ابو سفیان کے عہد خلافت میں آپ سعید بن عثمان کے ہمراہ خراسان کی فوج کشی میں شریک ہوئے۔ اس سلسلے میں بعض فتوحات کے مال غنیمت میں سے سعید نے آپ کو ایک ہزار درہم دینا چاہا لیکن آپ نے کہا پہلے تم اپنا پانچواں حصہ لے لو، اس کے بعد عام مجاہدین میں تقسیم کرو، ان سے بچنے کے بعد جو چاہے دے دینا۔ اسی سلسلہ کے معرکہ سمرقند میں جام شہادت نوش فرمائی۔[2]
حلیہ مبارک
[ترمیم]قثم بن عباس صورۃ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم شیبہ تھے۔ بعض شعرا نے اس پر طبع آزمائی بھی کی ہے۔[2]
فضل و کمال
[ترمیم]علمی اعتبار سے قثم بن عباس کا شمار ممتاز صحابہ اکرام میں ہوتا تھا۔ علامہ ابن سعد لکھتے ہیں قثم پاکباز اور فاضل تھے۔ ابو اسحاق نے ان سے روایت کی ہے۔[2]