لیاقت نہرو معاہدہ
اقلیتوں کی حفاظت اور حقوق کے متعلق حکومت ہند اور حکومت پاکستان کے درمیان نئی دہلی میں مورخہ 8 اپریل 1950ء کو جو معاہدہ عمل میں آیا، اسے (وزارت خارجہ کی دستاویز کے مطابق) نہرو لیاقت معاہدہ کہا جاتا ہے۔ اسے معاہدہ دہلی بھی کہتے ہیں،
اس معاہدہ کی تفصیلات حسب ذیل ہیں؛
(الف) حکومت ہند اور حکومت پاکستان سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ؛
1) ان کی مملکت میں اقلیتوں کو ان کے مذاہب سے قطع نظر شہری کے یکساں حقوق حاصل رہیں گے۔
2) ان اقلیتوں کی جان، مال، جائداد، ثقافت، ذاتی وقار، کی حفاظت و سلامتی، کے ساتھ پورے ملک میں نقل و حرکت کی آزادی، پیشہ و روزگار کی آزادی، تحریر و تقریر کی آزادی، عبادت کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی بشرط یہ کہ ان سے اخلاق و قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔
3) اقلیتی فرقوں کے ارکان کو بھی ملک کے دیگر اکثریتی طبقات کے ساتھ امورمملکت میں شمولیت کے مساوی مواقع فراہم ہوں گے، وہ سیاسی عہدہ سنبھال سکیں گے، سول اور آرمڈ فورسز میں بھرتی ہوکر ملک کی خدمت کر سکیں گے۔
4) دونوں ہی حکومتیں یہ اعلان کرتی ہیں کہ اقلیتوں کے یہ حقوق بنیادی حقوق میں شامل ہیں اور ان کے موثر نفاذ کا عہد کرتی ہیں۔
وزیر اعظم ہند نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دستور ہند میں یہ اقلیتی تحفظات کی دفعات پہلے ہی سے شامل ہیں اور اقلیتوں کے حقوق کی دستور ہند میں ضمانت دی گئی ہے۔وزیر اعظم پاکستان نے بتایا کہ اسی طرح کی تجاویز پاکستانی دستور ساز اسمبلی کے لیے آبجیکٹیوز ریزولوشن میں بھی منظور کی گئی ہیں۔
دونوں حکومتوں کی یہ پالیسی ہے کہ ان جمہوری حقوق سے مستفیض ہونے کا موقع بلا کسی امتیاز تمام شہریوں کو یقینی طور پر ملنا چاہیے۔
5) دونوں حکومتوں کی خواہش ہے کہ وہ اس بات پر زور دیں کہ اقلیتی طبقات کی وفاداریاں ان ممالک کے ساتھ ہی ہوں گی جن کے وہ شہری ہیں اور انھیں اپنی شکایات کے حل کے لیے اپنے ہی ممالک کی حکومتوں کی طرف دیکھنا ہوگا۔
(ب) مشرقی بنگال، مغربی بنگال، آسام، تریپورہ کے مہاجرین کے بارے میں جہاں حال ہی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے،دونوں ممالک کی حکومتیں اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ:
1) ٹرانزٹ، گزرنے کے دوران مکمل سیکورٹی اور نقل و حرکت کی آزادی فراہم کی جانی چاہیے۔
2) مہاجرین کو یہ آزادی ملنی چاہیے جس قدر اپنا مال و اسباب نکال سکیں، نکال لیں۔منقولہ جائداد میں ذاتی زیورات بھی شامل ہوں گے۔زیادہ سے زیادہ نقد رقم فی بالغ مہاجر ڈیڑھ سو روپے اور فی نابالغ مہاجر بچھتر روپے رکھنے کی اجازت ہوگی۔
3) اگرکوئی مہاجر یہ نقدی اور زیورات خود نہیں لے جانا چاہتا ہے تو اسے بنک میں جمع کرسکتا ہے۔
4) کسٹم حکام انھیں پریشان نہیں کریں گے۔اس کی ضمانت کے لیے کسٹم چوکیوں پر دوسرے ملک کے افسر بطور رابطہ کار تعینات رہیں گے۔
5) مہاجرین کی غیر منقولہ جائداد میں مالکانہ حقوق اور کرایہ دارانہ حقوق کی بھی حفاظت ہوگی۔اگر اس کی غیر حاضری میں کوئی اس کی جائداد پر قبضہ کرلے تو یہ جائداد واپس دلائی جائے گی بشرطیکہ مہاجر 13؍دسمبر 1950ء سے پہلے واپس آجائے۔ اگر مہاجر زرعی زمین کا مالک یا کرایہ دار ہے تو اس کی بھی جائداد اس تاریخ تک واپس آجانے پر اسے دلوائی جائے گی۔
کسی غیر معمولی کیس میں اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کسی مہاجر کو اس کی جائداد واپس نہیں کی جائے گی تو پھر یہ معاملہ مشورہ کے لیے متعلقہ اقلیتی کمیشن کے سپرد کیا جانا چاہیے۔اگر مقرر تاریخ تک لوٹ آنے والے کسی مہاجر کی جائداد لوٹانا ممکن نہ ہو تو پھر حکومت اس کی آبادکاری کرے گی۔
اس معاہدے کے باب سوم میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مشرقی بنگال، مغربی بنگال، آسام، تریپورہ کے حالات سدھارنے اور معمول پر لانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔ مجرمانہ جرائم میں شامل افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ جہاں جہاں ضروری ہو وہاں خصوصی عدالتیں بھی قائم کی جائیں۔ لوٹی ہوئی املاک و جائداد ہر ممکن واپس لی جائیں۔ مغویہ عورتوں کو برآمد کرنے کے لیے فوری طور پر ایسی ایجنسی قائم کی جائے جن میں اقلیتی نمائندے بھی ہوں۔ جبری تبدیلیٔ مذہب کو قبول نہیں کیا جائے اور ایسی حرکتوں میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے۔
فسادات کی چھان بین کے لیے ہائی کورٹ کے جج کی نگرانی میں کمیشن آف انکوائری قائم کیا جائے۔اور اقلیت کے بھی ایسے افراد اس میں شامل ہوں جن سے انھیں حوصلہ ملے۔ یہ کمیشن ’’آئندہ ہنگاموں کو کیسے روکا جائے‘‘ اس کی بھی سفارشات پیش کرے۔
افواہیں اور غلط خبر پھیلانے والے افراد اور اداروں پر سخت نگرانی کی جائے اور ان پر ایکشن لیا جائے۔
اپنے ملک میں پڑوسی ملک کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈا کی اجازت نہیں دی جائے یا دونوں کے در میان جنگ بھڑکانے یا ان کی جغرافیائی سلامتی کے خلاف پروپیگنڈا پر ایکشن لیاجائے۔
اس معاہدے کے ذریعے ایسے بھی اقدامات پر غور ہوا کہ دونوں ممالک کا ماحول نارمل بنایا جائے تاکہ مہاجرین کی اپنے اپنے وطن واپسی ممکن ہو سکے۔اس کے لیے دونوں ممالک کے ایک ایک وزیر کو متاثرہ حلقوں میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔مشرقی بنگال اور مغربی بنگال کی کابینہ میں فوراً اقلیتی طبقہ کے ایک ایک وزیر کو شامل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
اس معاہدے کی تجاویز پر عمل کے لیے مشرقی بنگال، مغربی بنگال اور آسام میں ایک ایک اقلیتی کمیشن قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔جس کا چئیرمین ایک صوبائی وزیر اور اراکین میں اقلیتی فرقے کے افراد شامل ہوں۔پاکستان اور بھارت کے دو وزیر کمیشن کی کارروائیوں میں شریک رہیں گے۔اقلیتی کمیشن ضلع سطح کے اقلیتی بورڈز سے رابطہ میں رہے گا اور اس معاہدہ پر عمل در آمد کا اقلیتی کمیشن جائزہ لے گا۔
اس طرح پنڈت جواہر لال نہرو اور لیاقت علی خان نے اقلیتی طبقات کو مین اسٹریم میں شامل کرنے اورحالات کو نارمل کرنے کی کوشش کی، وہ تاریخ کا اہم حصہ ہے۔[1]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ (بحوالہ: ’’تحقیقات ایکسپریس ڈاٹ کام‘‘۔ 2؍اپریل 2019ء)